ڈائری لکھنے کا شوق تو مجھے صرف اس لئے پیدا ہوا تھا کہ بچپن میں کئی کہانیوں میں پڑھا تھا کہ ہیرو کو کہیں کسی خفیہ خانے یا دراز میں سے ایک عدد پاگل سائنسدان یا بوڑھے جادوگر یا اسی طرح کے کسی کردار کی ایک خفیہ ڈائری مل جاتی تھی اور اس میں نلکا ٹھیک کرنے سے لے کر آبِ حیات پانے تک سب کا راز لکھا ہوتا تھا۔ سوچتا تھا کہ شاید اگر آپ ڈائری خرید لیں تو خود بخود ہی “راز کی باتیں” آپ پر آشکار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور آپ بھی کوئی کیمیا گری کی کتابِ لکھ ڈالتے گے۔ لہٰذا سب سے پہلی کنواری ڈائری جو میں نے پہلے صفحے پر باقاعدہ اپنا نام لکھ کر شروع کی وہ بڑے بھائی کی خفیہ الماری سے چوری کی تھی۔ میرے بھائی کو کسی نے شاید تحفے میں دی تھی اور مجھے وہ بہت پسند تھی کیونکہ اس کے ورق روغنی تھے اور ان پر زیریں حاشیوں میں کارٹون نما کیڑے مکوڑے بھی بنے ہوئے تھے (کراٹین(یہ میں نے ابھی ابھی کارٹون کی جمع نکالی ہے) مجھے اب بھی پسند ہیں) اور سب سے بڑھ کر اس میں ایک عدد چھوٹی سی “تالی” بھی لگتی تھی جو کہ “پرائویسی” کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ میرے بھائی کو اس ڈائری کے بارے میں اس وقت پتا چلا تھا جب مجھے کم از کم ایک سال ہو چکا تھا اس ڈائری کو کالا اور نیلا کرتے ہوئے!۔
میں نے ڈائری میں ہمیشہ شاعری ہی لکھی، کبھی کسی ڈائجسٹ سے دیکھ کر کبھی کسی میگزین سے دیکھ کر، کالج کے زمانہ میں لاہور کے فٹ پاتھوں سے کتابیں خرید کر بھی۔۔۔۔خود سے نثر کبھی نہ لکھ سکا، کئی دفعہ سوچا کہ لکھوں لیکن بے سود ہی رہا۔ پتا نہیں کون لوگ ہوتے ہیں جو اپنے روز کے معمولات ڈائریوں میں قلمبند کرتے ہیں، میرے شب و روز میں تو کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی قصہ ہی نہیں ہوتا تھا، بس گزر ہی جاتا تھا دن، اور تو کچھ نہیں ہوتا تھا!
ایک دو دفعہ لکھنے کیلیے بیٹھا اور شروع بھی کیا: “میں آج صبح ساڑھے سات بجے اٹھا، باتھ روم گیا۔۔۔۔۔۔ سب کچھ کر کرا کے سکول چلا گیا۔ آٹھ پیریڈ کلاس میں یٹھا رہا۔ مِسیں اور سَر ور (یہ سَر کی جمع ہے: سَ+رُور ) آتے جاتے رہے۔ بیچ میں آدھا گھنٹا بریک بھی ہوئی جس میں میں نے سموسہ کھایا اور بوتل پی۔ کینٹین والے چاچا جی نے دو روپے بقایا دئیے۔ تھوڑا سی اچھل کود کی۔ گھر واپس آ گیا۔”
اب مجھے بتائیں کہ اس میں لکھنے والی کیا بات ہے۔۔۔ میرے خیال میں سکول کے سب بچوں نے یہی کیا ہوگا۔ لہٰذا صفحہ پھاڑ دیا ۔
کبھی کبھار جو شاعری نوٹ کر لیا کرتا تھا وہ بھی کالج میں آکر تھوڑی کم ہوئی اور پھر یونیورسٹی میں بالکل ہی رہ گئی۔ حال ہی میں ایک نئی نکور ڈائری “پھانڈے” میں ملی تو پھر سے سوچاہم بھی اپنے دن رات کی روداد لکھتے ہیں کہ کیا پتا ایک وقت ایسا آئے کہ لوگ میری ڈائری کو کتابی صورت میں چھاپ دیں اور پھر درسی کتابوں میں میری خود نوشت سے اقتباسات شامل ہوں۔۔۔واہ واہ واہ۔۔۔۔ بس اسی‘ ممکنہ ضرورت’ کے پیشِ نظر میں نے کچھ عرصے تک اپنی “مستقبل کی تاریخ “خود تخلیق کی پر اب وہ بھی بلاگ کی طرح کبھی کبھار پہ ہی چلی گئی ہے۔ ۔۔ چلو باقی کا کام کسی “پروفیشنل” ادیب شدیب سے لکھوا لیں گے۔
یہ ساری بات تو میری اصل تحریر کا پیش لفظ یا تمہید تھی، جو ایک پیراگراف سے بڑھتے بڑھتے لمبی ہو گئی۔۔ اصل میں میں اپنی ڈائریوں سے انتخاب لکھنا چاہ رہا تھا۔ اب الگ پوسٹ میں چھاپوں گا۔
اس تحریر پر 8 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: فلمستانی پوسٹ
اگلی تحریر: بڑا بول
مستقل لنک
بالکل چھاپیں اقتباسات۔ آپ کے سنہرے خیالات جاننے کیلیے ہم بے تاب ہیں
مستقل لنک
جی جی ایسے ویسے بے تاب بہت ہی بیں۔جلدی جلدی چھا پئے
مستقل لنک
ہم منتظر ہیں
مستقل لنک
شکریہ سبکا اتنا منتظر ہونے کا۔۔۔۔ ویسے ایسا کچھ نہیں ہے جس کا انتظار کریں آپ۔ :پ
اب مارنا نہ سارے مجھے بعد میں۔۔! :ڈ
مستقل لنک
ڈائری اور بلاگ میں ایک فرق یہ ہے کہ آپ اپنی ڈائری پرائیویسی کی وجہ سے کسی کو دکھا نہیں سکتے. جبکہ بلاگ ہر کسی کو دکھایا جاسکتا ہے….تاآنکہ یہ کہ دیکھنے والا آپ سے حقیقی زندگی میں واقف نہ ہو. یہ بلاگ بھی ایک دلچسپ دنیا ہے. لوگ آپ کے بارے میں بہت کچھ جاننے کے باوجود بہت کچھ نہیں جانتے یا بہت کچھ نہ جاننے کے باوجود بہت کچھ جانتے ہیں.
کبھی ترنگ میں آیا تو اس پر لکھوں گا.
مستقل لنک
ڈائری ايک ايسا دوست ہے جو فارغ لمحوں ميں مددگار ثابت ہوتا ہے مگر اس کی قدر و قيمت بہت کم لوگ جانتے ہيں ۔ کچھ ميرے جيسے بھی ہوتے ہيں جن کی ساری پونجی يعنی ڈائری ان کی عدم موجودگی ميں ردی ميں بيچ دی جائے
مستقل لنک
::عثمان:: صحیح کہا آپنے… پوسٹ کا انتظار رہے گا…
::افتخار صاحب:: شکریہ تشریف لانے کا.. یہ تو واقعی ظلم ہے.. میں کچھ خاص لکھتا تو نہیں ہوں ڈائری میں لیکن ردی کا تو تصور ہی خوفناک ہے!.. ہو سکتا ہے کبھی جلا دوں !! :پ
مستقل لنک