کل رات ہم سب دوست کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے تھے اور چائے کا انتظار کر رہے تھے۔ بات تو کچھ اور ہی چل رہی تھی لیکن ہمارے ایک سینئر دوست عرف بھائی جان نے ایک قصّہ سنایا، آپ بھی سنئے:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ خوشحالی کے دن تھے۔ ایک دن بادشاہ کی ملاقات ایک درویش صفت بزرگ سے ہوئی، بزرگ بہت نیک اور پرہیزگار تھے۔ بادشاہ اُن سے بہت عزت سے پیش آیا اور ملاقات کے آخر میں اس نے فرمائش کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز ، تعویز، وظیفہ وغیرہ لکھ کر دیں جو انتہائی مشکل میں میرے کام آئے۔ بزرگ خاموش رہے لیکن بادشاہ کا اصرار بڑھا تو انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کاغذ کو اُسی وقت کھولنا جب تم سمجھو کہ بس اب اس کے آگے تم کچھ نہیں کر سکتے یعنی انتہائی مشکل میں۔
قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اس ملک پر حملہ ہو گیا اور دشمن کی فوج نے بادشاہ کی حکومت کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ بادشاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور وہ بھاگ کر کسی جنگل میں ایک غار میں چھپ گیا۔ دشمن کے فوجی اس کے پیچھے تھے اور وہ تھک کر اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں درویش بابا کا دیا ہوا کاغذ یاد آیا، اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، خوش قسمتی سے وہ اس کے پاس ہی تھا۔ سپاہیوں کے جوتوں کی آہٹ اسے قریب آتی سنائی دے رہی تھی، اب اس کے پاس کاغذ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب اس نے وہ کاغذ کھولا تو اس پر لکھا تھا ” یہ وقت بھی گزر جائے گا” ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔!
بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ بزرگ نے یہ کیا کھیل کھیلا ہے، کوئی اسمِ اعظم ہوتا یا کوئی سلیمانی ورد!۔ ۔ ۔ لیکن افسوس وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تحریر کو دوبارہ پڑھا، سہہ بارہ پڑھا۔ ۔۔ ۔ کچھ دیر تو بادشاہ سوچتا رہا، غور کرتا رہا کہ کیا کرے پھر آخر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور سپاہیوں کا انتظار کرنے لگا۔ سپاہی آئے، اس نے مقابلہ کیا ا ور وہ بچ نکلا۔ اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کس طرح کسی دوسرے ملک میں گیا، وہاں اس نے اپنی فوج کو اکٹھا کیا، اسے ہتھیاروں سے لیس کیا اور آخر کار ایک وقت آیا کہ اس نے اپنا ملک واپس لے لیا اور پھر سے اپنے تخت پہ جلوہ نشیں ہوا۔ اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور ہو گئے اور رعایا میں اس کا خوب تذکرہ ہوا۔ اس کے دربار میں اور دربار سے باہر بھی لوگ صرف اپنے بہادر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ اتنا بول بالا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں غرور پیدا ہوا اور وہ اپنی شجاعت پہ اور سلطنت پہ تھوڑا مغرور ہوا ہی تھا کہ اچانک اس کے دل میں بزرگ کا لکھا ہوا فقرہ آیا کہ ” یہ وقت بھی گزر جائے گا” ۔ ۔ ۔ ۔!!
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ خوشحالی کے دن تھے۔ ایک دن بادشاہ کی ملاقات ایک درویش صفت بزرگ سے ہوئی، بزرگ بہت نیک اور پرہیزگار تھے۔ بادشاہ اُن سے بہت عزت سے پیش آیا اور ملاقات کے آخر میں اس نے فرمائش کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز ، تعویز، وظیفہ وغیرہ لکھ کر دیں جو انتہائی مشکل میں میرے کام آئے۔ بزرگ خاموش رہے لیکن بادشاہ کا اصرار بڑھا تو انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کاغذ کو اُسی وقت کھولنا جب تم سمجھو کہ بس اب اس کے آگے تم کچھ نہیں کر سکتے یعنی انتہائی مشکل میں۔
قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ اس ملک پر حملہ ہو گیا اور دشمن کی فوج نے بادشاہ کی حکومت کو الٹ پلٹ کے رکھ دیا۔ بادشاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور وہ بھاگ کر کسی جنگل میں ایک غار میں چھپ گیا۔ دشمن کے فوجی اس کے پیچھے تھے اور وہ تھک کر اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں درویش بابا کا دیا ہوا کاغذ یاد آیا، اس نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، خوش قسمتی سے وہ اس کے پاس ہی تھا۔ سپاہیوں کے جوتوں کی آہٹ اسے قریب آتی سنائی دے رہی تھی، اب اس کے پاس کاغذ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب اس نے وہ کاغذ کھولا تو اس پر لکھا تھا ” یہ وقت بھی گزر جائے گا” ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔!
بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ بزرگ نے یہ کیا کھیل کھیلا ہے، کوئی اسمِ اعظم ہوتا یا کوئی سلیمانی ورد!۔ ۔ ۔ لیکن افسوس وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تحریر کو دوبارہ پڑھا، سہہ بارہ پڑھا۔ ۔۔ ۔ کچھ دیر تو بادشاہ سوچتا رہا، غور کرتا رہا کہ کیا کرے پھر آخر اس نے اپنی تلوار اٹھائی اور سپاہیوں کا انتظار کرنے لگا۔ سپاہی آئے، اس نے مقابلہ کیا ا ور وہ بچ نکلا۔ اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے کہ وہ کس طرح کسی دوسرے ملک میں گیا، وہاں اس نے اپنی فوج کو اکٹھا کیا، اسے ہتھیاروں سے لیس کیا اور آخر کار ایک وقت آیا کہ اس نے اپنا ملک واپس لے لیا اور پھر سے اپنے تخت پہ جلوہ نشیں ہوا۔ اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور ہو گئے اور رعایا میں اس کا خوب تذکرہ ہوا۔ اس کے دربار میں اور دربار سے باہر بھی لوگ صرف اپنے بہادر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ اتنا بول بالا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں غرور پیدا ہوا اور وہ اپنی شجاعت پہ اور سلطنت پہ تھوڑا مغرور ہوا ہی تھا کہ اچانک اس کے دل میں بزرگ کا لکھا ہوا فقرہ آیا کہ ” یہ وقت بھی گزر جائے گا” ۔ ۔ ۔ ۔!!
مستقل لنک
عبدالقادر حسن نے بھی چند دن پہلے یہی کہانی اپنے کالم میں لکھی تھی۔۔۔
مستقل لنک
جعفر صاحب نے میری مشکل آسان کر دی میں سوچ رہا تھا کہ یہ مضمون کہاں پڑھا ہے
مستقل لنک
چلیں آپ دونوں نے میری مشکل آسان کر دی ۔ ۔ ۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ میرے دوست نے یہ کہاں سے گھڑ لیا۔ ۔ ۔!
اگر مجھے پتا ہوتا تو میں ریفرنس ضرور دے دیتا۔ ۔ ۔
مستقل لنک
آپکا یار بڑا تیز بنتا ہے
اور اگر واقعی یار ہے تو آپ کے ہاتھ اسکو [بیست] کرنے کا سنہری موقع آ گیا ہے
مستقل لنک
ہا ہا ہا ۔ ۔۔ ۔ 😀