پہلا پہلا واقعہ
ہمیشہ کی طرح میرے ذہن میں اس وقت کوئی تحریر جنم لیتی ہے جب میں کسی بلاگ پر جا کر تبصرہ کرتا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اس کو ذرا اور بہتر کر کے اپنے بلاگ پہ ہی پوسٹ دوں تو مزید لوگ مستفید ہو جائیں گے اور بلاگ بھی ہرا بھرا رہے گا۔۔۔
تو یہ قصہ ہے اس زمانے کا جب میں ایف ایس سی سے فارغ ہوا تھا (یعنی کہ صرف تین سال پرانا) اور اسلام آباد میں یونیورسٹی داخلے کیلئے <این او سی> چاہیئے تھا۔ چونکہ مجھے جی سی یو چھوڑے کچھ ماہ ہو چکے تھے اس لئے میں اپنے ہاسٹل سے بھی فارغ ہو چکا تھا۔ لہٰذا میں صبح سویرے لاہور روانہ ہوا ۔ جمعہ المبارک کا دن تھا۔ لاہور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے دفتر پہنچا۔ میرے دوست نے مجھے بتایا تھا کہ صبح جا کر دفتر میں فارم پُر کر کے جمع کروا دینا اور تین چار گھنٹوں بعد آکر سرٹیفیکیٹ لے لینا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور فارم پُر کرکے جمع کروا دیا۔ کلرک نے کہا کہ فلاں بجے آکر لے لینا (مجھے ٹائم ٹھیک سے یاد نہیں)۔ میں وقتِ مقررہ پر آ گیا اور دفتر میں موجود ایک قدرے نوجوان کلرک سے اپنے سرٹیفیکیٹ کی بابت پوچھا۔ وہ صاحب بولے کہ اب تو دفتر کا وقت ختم ہو رہا ہے آپ کو سرٹیفیکیٹ دو دن بعد ہی ملے گا (کیونکہ اگلے روز ہفتہ تھا اور غالباً کوئی عام تعطیل تھی)۔ میں ایک دم پریشان ہو گیا کیونکہ میں دو دن وہاں رُک نہیں سکتا تھا اور سوموار کو میں نے اسلام آباد سرٹیفیکیٹ جمع کروانے جانا تھا۔ میں نے ان صاحب سے کہا کہ مجھے یہی وقت دیا تھا اور اب آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں مل سکتا۔ وہ بولا کہ جن سرٹیفیکیٹس پر دستخط ہونے تھے ان پر پہلے ہی ہو چکے ہیں، اب مزید نہیں ہونگے کیونکہ دفتری اوقات ختم ہونے والے ہیں۔ میں نے اپنی مجبوری بیان کی کہ میں یہاں رک نہیں سکتا اور لالہ موسیٰ سے آیا ہوں۔ وہ بولا کہ آپ ایسا کریں کہ تین سو روپے دیں اور تین گھنٹوں بعد آ کر سند لے جائیں۔۔۔۔ میں نے کچھ سمجھی اور کچھ نا سمجھی کی کیفیت میں کہا کہ جو تین سو روپے فیس ہے اس سرٹیفیکیٹ کی، اس کا بینک چالان فارم میں نے لگایا ہے فارم کے ساتھ(اور پورا گھنٹا لائن میں لگ کے جمع کروائی ہے فیس!)۔ ۔۔۔بولا یہ نہیں اس کے علاوہ تین سو روپے مجھے دیں تو میں 3 گھنٹے بعد سند لا دوں گا۔۔۔۔
میں حیران پریشان کمرے سے باہر آیا اور سوچنے لگا کہ کیا اس شخص نے ابھی ابھی مجھ سے رشوت مانگی ہے۔۔۔۔! کیا رشوت ایسے مانگی جاتی ہے؟۔۔۔۔۔ میرا تو خیال تھا کہ ڈھکے چھپے انداز میں مانگتے ہوں گے اور کیا اس طرح تعلیمی اداروں میں براہ راست ایک سٹوڈنٹ سے۔۔۔۔۔!
مجھے واقعی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ میں نے اپنے دوست کو فون کیا ور ماجرا بیان کیا۔ وہ بولا کہ یار ! مجھے تو آسانی سے مل گیا تھا۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کو کال کی اور پتا نہیں کیوں مجھے اپنی آواز میں نمی محسوس ہوئی (پتا نہیں میں اتنا اووَر رِی ایکٹ کیوں کر رہا تھا۔۔)۔۔۔۔ بھائی نے کہا کہ دوبارہ جا کر بات کرو۔
میں نے دل میں کیا دعا مانگی اور کیا الفاط دل سے نکلے یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن جب میں دوبارہ دفتر میں گیا تو وہاں اس ڈیسک پر اس لڑکے کی جگہ کوئی اور کلرک موجود تھا۔ میں نے دوبارہ سے اپنی درخواست دہرائی تو اس کلرک نے میری جانب دیکھا اور پوچھا کہ کب دے کر گئے تھے اپنا درخواست فارم؟ میں نے وقت بتایا تو اس نے ایک بڑی سی فائل میرے سامنے رکھی اور کہا کہ اس میں سے اپنا سرٹیفیکیٹ نکال لو اور یہاں دستخط کر دو۔۔۔۔۔!
مین ایک دفعہ پھر حیران تھا لیکن اب کے میں پریشان نہیں تھا۔۔۔۔
یہ زندگی کا پہلا براہ راست واقعہ ہے اس سلسلے کا۔۔۔۔ مزید بھی لکھوں گا پھر کبھی۔۔۔