اصل وجہ؛ مولوی یا جہالت
آج نوجوانوں کی اکثریت اگر دینی حلقوں کے مکمل خلاف نہیں تو کم از کم بیزار ضرور ہے اور اس کی بڑی وجہ جہالت ہے۔ مولوی اصل مسئلہ نہیں ہیں اصل مسئلہ جہالت ہے، خواہ وہ کسی بھی طبقے میں ہو.۔مولوی طبقہ زیادہ بدنام اسلئےہے کہ وہ اپنے جائز و نا جائز تبصروں، ذاتی چپقلشوں اور دشمنیوں ، سیاست یا باقی تمام معاملات میں دین کو ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سوچ کہاں سے آئی ہے؟ ہمارے چاروں طرف یہی ہوتا ہے کہ جس کے پاس جو بھی علم ہے اس کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرو،تو پھر ہم میں سے ہی نکلنے والے مولوی ہم سے مختلف کیونکر ہوں گے؟ میں علما کی بات نہیں کر رہا۔ جو نیم ملا ہو گا وہی خطرہ ایمان ہو گا۔ جب لوگ ہی وہ آتے ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس “ہتھیار” سے تو بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔ اور اس جہالت کو فروغ دینے والے کون لوگ ہیں،۔۔۔۔ہم!
ان لوگوں کو دین کی اجارہ داری کس نے سونپی ہے، ہم نے۔۔۔ اپنے آپ کو دین کی الجھن سے آزاد کرنے کیلئے، جائز کو نا جائز اور ناجائز کو جائز بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے۔۔۔ ۔اگر محلے کی مسجد میں کوئی سچ بولنے والا واعظ آ جائے غلطی سے تو ’ مسجد کمیٹی‘ کا اجلاس طلب کر لیا جاتا ہے(اور یہ کمیٹیاں جن حضرات پہ مشتمل ہوتی ہیں آپ جانتے ہی ہوں گے!) اور ان حضرت کو ان کے علم سمیت نکال باہر کیا جاتا ہے کہ صاحب اگر مسجد کو چندہ دینے والے حضرات کا مال ہی سودی ثابت کر دیا تو کاروبار کیسے چلے گا مسجد کا!
اور جب وہ حضرت یہ حال دیکھتے ہیں اور تین چار جگہوں سے اسی طرح نکالے جاتے ہیں تو اگلی دفعہ خاص احتیاط کرتے ہیں کیونکہ ان کے بھی بیوی بچے ہیں، اور بد قسمتی سے سب کے ساتھ پیٹ بھی لگا ہوا ہے، عوام اور انتظامیہ کی طرح، لہٰذا مہینے کے چار جمعوں کے چار خطبے، عیدین اور رمضان کے خصوصی خطبات اور اس کے علاوہ کمیٹی کی خصوصی فرمائش پر فلاں فلاں مسجد کے مولویوں اور انتظامیہ کے خلاف ’ قرآن و سنت‘ کی روشنی میں اسلام کے دروازے بند کر نا، یہی ان کا فرضِ منصبی قرار پاتا ہے۔ جس سے محلے میں ان کے علم کی دھوم مچ جاتی ہے۔۔۔ عوام خوش، انتظامیہ خوش، مولوی خوش!!
جائزہ لیں اور سوچیں کہ کتنے لوگ ہیں ایسے جو اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دینے کے بارے میں سوچتے ہیں اور جو کرتے ہیں ان میں سے اکثریت ایسوں کی ہوتی ہے کہ گھر میں کھانے کو ہوتا نہیں ہے، کمانے والا سب کچھ “لُٹا” کر گھر آتا ہے۔۔۔ چلو جی چھوٹے کو مدرسے میں ڈال دو، خود بھی آرام سے کھائے گا اور ہمارے لئے بھی مانگ لائے گا دال روٹی!
یا پھر، ایک بچہ تو ماشا اللہ حساب میں اتنا اچھا ہے کہ وہ تو ابھی سے ہی بینکر بننے کا سوچتا ہے اور دوسرے والا تو جناب ڈاکٹر ہی بنے گا، ماشا اللہ بہت تیز دماغ ہے اس کا۔ ۔۔۔اور اس کا کیا بنے گا، سارہ دن آوارہ پھرتا ہے، روز ہی کسی نہ کسی کا ‘ لانبا’ آتا ہے، سکول میں ڈالا تو تھا لیکن بھاگ جاتا ہے وہاں سے، ماسٹر صاحب نے کہا ہے کہ اسے سکول کی دیوار سے بھی دور رکھو نہیں تو جان سے مار دوں گا۔۔۔۔۔ہائے! کیا بنے گا اس آوارہ کا؟
میں تو کہتا ہوں اس کو پاس والے گاؤں کے مدرسے میں ڈال دوں، وہیں رہے گا اور چار دن مار کھائے گا مولوی کی تو ٹھیک ہو جائے گا۔ یوں گھر میں پڑا پڑا روٹیاں تو نہیں توڑے گا نا!
اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔ اِن پُٹ آپ کے سامنے ہے اور آؤٹ پُٹ کی امید ایکسٹرا رکھی جاتی ہے۔۔۔