اس تحریر پر 16 تبصرے کئے گئے ہیں


  1. بہت شاندار مضمون، بہت ہی اچھی نصیحت
    تو پھر اپ بھی شامل ہو جائیں اس دھارے میں اور ہم بھی کوشش کرتے ہیں شامل رہنے کی۔ واللہ الموفق

    Reply

  2. میرا تو خیال ہے (آُپ کے مطابق ایک ناکامیاب بلاگر :)) جب دل کرے بلاگنگ کرنی چاہیے، صرف مشہور ہونے کے لیے نہیں کرنی چاہیے۔

    Reply

    1. ارے یہ میں نے کب کہا کہ جو ’دل‘ سے بلاگنگ کرتا ہے وہ نا کام ہے۔ ناکام کی ڈیفینیشن تو ہر فرد کیلئے مختلف ہو سکتی ہے، اس کے مقصد کو دیکھتے ہوئے۔ :)
      سب کی اپنی اپنی مرضی ہے، ان کا بلاگ جیسے چاہیں استعمال کریں۔ لیکن یہ بھی ایک جہت ہے بلاگنگ کی ، بہت سے لوگ اس لئے لکھتے ہیں کہ لوگ اسے پڑھتے ہیں، صرف خود پڑھنے کیلئے نہیں لکھتے۔ یہ ان کیلئے ہے کہ کیسے وہ اپنے بلاگ کے وزیٹرز کو وفا دار بنا سکتے ہیں اور ان کے وزٹ کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

      Reply

      1. اصل میں اس بات سے تھوڑی سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔

        “لیکن یہ بلا شبہ ایک کامیاب بلاگ کی سٹریٹجی نہیں ہے۔”

        Reply

        1. اوہ ہاں۔۔۔ اصل میں اس تحریر کا ماخذ انگریزی تحریر ہے، سو ہو سکتا ہے میرے الفاظ بات کو شاید صحیح بتا نہ سکے ہوں۔
          زیادہ تر کے نزدیک ایک کامیاب بلاگ وہی ہے جس کو لوگ وزٹ کریں اور جو وزیٹرز کو کچھ نیا اور ان کے مزاج کے مطابق دیتا رہے۔

          Reply

  3. بھیا مُجھے تو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا نا؟ :پ

    خوب کہا کہ بعض لوگ تب لکھتی ہیں جب کوئی تحریر زور کی آئی ہوتی ہے :د
    بھیا میرے ساتھ بھی مسئلہ ہے کہ ہر فضول چیز اپنے بلاگ پر شئیر کرنے کا دِل نہیں مانتا یعنی بات معیار کی ہے۔۔۔۔

    Reply

    1. تو فضول چیز شیئر کرنے کی بات کس نے کی۔۔۔۔ بات صرف تلاش کی ہے، آپ کو وقت نکال کر “بے فضول” چیز ڈھونڈنی ہو گی۔۔۔
      یار بات یہ ہے کہ یہ باتیں ہر بلاگ پہ لاگو نہیں آتی کیوں کہ پرسنل بلاگز کی تعداد زیادہ ہے، ان پہ آپ شیئر نہیں کرتے بلکہ کسی معاشرتی مسئلے پہ ڈسکشن یا اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس کیلئے چنیدہ موضوع کا ہونا ضروری ہو جاتا ہے۔
      بس مجھے یہ باتیں اچھی لگیں، پرو بلاگرز کیلئے یہ اچھے نکات ہیں۔

      Reply

  4. بہت خوب محترم ، آرگنائزیشنل اسکلز کے بارے میں کوئی بھی اچھا مضمون راقم کی کمزوری ہے، بس پروکراسٹینیشن ‘کہولت’ ہی شاید بہتر ترجمہ ہو کاعلاج بھی بیان کردیں تو بڑی مہربانی ہوگی :)

    ہمارے یہاں اکیڈیمیا میں ایک مثل مشہور ہے، پبلش اور پیرش، یعنی شائع کرو یا اکادمی منظر عام سے غائب ہو جاو۔ آپ نے اسکا اچھا حل لکھا ہے؛ اللہ کرے زور قلم اور۔

    Reply

    1. حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ عدنان صاحب۔
      اور یہ جو procrastination کے بارے میں پوچھا ہے وہ تو کوئی استاد بلاگر ہی بتا سکتا ہے۔۔ میں تو نقل چھاپ اور شیئر والا بندہ ہوں۔۔۔ p:

      Reply

  5. ہا ہا ہا ۔ ۔ ۔بہت خوب ۔۔ ۔۔ ہم جیسے نئے لوگوں کے لئے اچھا مضمون ہے ۔ ۔ ۔

    شکریہ

    Reply

  6. اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بلاگ وقت دینے سے ہی پھلتا پھولتا ہے۔
    رہی بات پلان کے مطابق تحریر لکھنے کی تو میرے خیال میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ تحریر لکھنے کے لئے اندر اور باہر کا مناسب ماحول ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جبکہ اگر پلان کے وقت کے مطابق ماحول مناسب نہ ہو تو پھر تحریر بھی مناسب نہیں لکھی جا سکے گی۔ اس لئے تحریر تو تب ہی لکھی جائے گی جب زور کی ”آئی“ ہو گی۔
    رہی بات دیگر مواد شیئر کرنا۔ ایس ای او اور دیگر بلاگران کمیونٹی پر توجہ دینا وغیرہ یہ سب کام پلان/شڈول کے مطابق ہو سکتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر بلاگ یا کچھ بھی پڑھنا تو اس کے لئے بھی مناسب ماحول ہونا ضروری ہے۔
    اب یہ بھی نہیں کہ ہم مناسب ماحول کا انتظار کرتے کرتے وقت گزار دیں جبکہ کبھی کبھی مناسب ماحول کے لئے بھی تھوڑی محنت کرنی اور وقت دینا پڑتا ہے۔
    خیر یہ میری رائے ہے جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی ہر بندے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ میں تو بس یہی کہتا ہوں کہ اگر بلاگ بنایا ہے تو پھر بلاگ نگاری کی بھی کوشش کرو۔ ویسے میں خود کئی دفعہ تحریر لکھنے میں کافی وقت لگا دیتا ہوں۔

    Reply

    1. تشریف لانے اور تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ بلال بھائی۔
      آپ کی آخری بات کو دہراؤں گا بس کہ”اگر بلاگ بنایا ہے تو پھر بلاگ نگاری کی بھی کوشش کرنی چاہئے”۔۔۔
      تحریر کا مقصد بھی یہی ہے۔ باقی پلان اور شیڈول وغیرہ اگر کسی کیلئے کام کر جاتے ہیں تو یہ بہترین ہے۔ اگر آپ اپنی اس مشغلے کو اگلی سٹیج تک لے جانا چاہتے ہں تو اس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پرسنل بلاگ میں تو کسی چیز کا پابند ہونا ممکن نہیں ہو سکتا۔

      Reply

عمیر ملک کو جواب دیں جواب ترک کریں

بے فکر رہیں، ای میل ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ * نشان زدہ جگہیں پُر کرنا لازمی ہے۔ آپکا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن رائے کے اظہار کیلئے شائستہ زبان، اعلیٰ کردار اور باوضو ہونا ضروری ہے!۔ p: